مَیں سحرِ نَا گہاں مِیں کھو گیا تھا
ذرا سی دِیر — پاگل ہو گیا تھا
کہانی مِیں نَصیحت بھی تھی لیکن
وہ بَچّہ سُنتے سُنتے سو گیا تھا
سَمندر جانتا ہے، اُس سے پوچھو
ہَوا مِیں کون آنسو بو گیا تھا
سَمندر آسماں کی پیروی مِیں
اُفق تک جا کے اِک خط ہو گیا تھا
لَبِ ساحل مَیں اکثر سوچتا ہوں
عؔلی وہ کِس بھنور مِیں کھو گیا تھا