وہ خوف میں یوں نہ جانے کس کے ڈرا ہوا تھا

533

وہ خوف مِیں یُوں نہ جانے کِس کے ڈرا ہوا تھا
کہ خُود سے بھی کوئی بات کہتے ڈرا ہوا تھا

سُنا ہے حاکِم نے اَمن کی کوئی بات کی تھی
سُنا ہے اُس کو ہر اِیک سُن کے ڈرا ہوا تھا

وہ جُرم اُس نے وہیں کیا تھا مگر ہر اِک شخص
خلاف اُس کے گواہی دیتے ڈرا ہوا تھا

بَس اُس کی باتوں مِیں اِیک یہ بات نَرم خُو تھی
وہ سَخت لہجے مِیں بات کرتے ڈرا ہوا تھا

وہ دیکھ لیتا زَمیں کو پہلے تو کُچھ سَنبھلتا
مَگر وہ شاید بلندّیوں سے ڈرا ہوا تھا

شَجر، ہَوا نے اُسے ہی مُڑ مُڑ صَدائیں دی تھیں
وہ بَرگِ خَستہ جو ضُعفِ تَن سے ڈرا ہوا تھا

پُکارتا خُود کو اَپنی خاطِر تو بَچ نِکلتا
مَگر وہ شاید بہت ہی خُود سے ڈرا ہوا تھا

تَلاشِ خُفیہ مَقام مِیں تھا وہ یُوں پَریشاں
کہ جیسے بَچّہ کِسی بَلا سے ڈرا ہوا تھا

اُسے اَگر تھا عزیز اِتنا ہی کلمۂِ حَق
تو کیوں وہ لَبّیک اُس پہ کہتے ڈرا ہوا تھا

سِمٹ رہا ہوں مَیں رَفتہ رَفتہ عؔلی وہیں پر
مَیں جِس کی دہشت کا حال سُن کے ڈرا ہوا تھا

اسے میری غلطی نہیں بلکہ – معذرت کے ساتھ – گستاخی، بے اَدبی اور ضرورتِ مصرعہ خیال کیجیے۔ شکریہ *